شکوہ یہ کیا جائے کہ جو چاہتے ہیں وہ ہمارے تقدیر میں نہیں ہے یا جو ہمارے تقدیر میں ہے وہ ہمارے معیار یا پسند کے مطابق نہیں؟ کیا ہم یہ شکایت کریں کہ زندگی کے حسین لمحے جلدی گزر جاتے ہیں یا یہ شکایت کریں کہ مشکل ترین وقت گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا؟
بات جس بھی انداز میں کی جائے بات تو ایک ہی ہے۔ لیکن کیا یہ شکوہ کرنا ہمارا مقام ہے؟ کیا ہماری محنت “محنت ” کہلانے کے لائق ہے؟ کیا ہم اپنی پسند ک حصول کے قابل ہیں؟ تقدیر پر یقین رکھنا ہمارے ایمان کے بنیادی ترین تقاضوں میں سے ہے، لیکن یہ تقدیر ہمارے فیصلوں، محنت، اور مروجہ حالات کے بغیر نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی
(الرعد آیت 13)
جب خداوند الہی نے کہہ دیا ہے کہ اپنی حالت بدلنے کی فکر پہلے خود کرو، پھر تمہارے اوصاف بدلنے کا نظام ہو گا- تو پھر کون سی چیز ہے جو ہمیں محنت کرنے سے روکتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم کوشش کرنے سے کتراتے ہیں؟ وہ چیز ہے ” خود اور خودی پہ بے یقینی”-اس بے یقینی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا یعنی بغیر کسی محنت اور کوشش کے صرف تقدیر سے کامیابی پا لینے کے آس میں بیٹھے رہتے ہیں۔
!پابندیِ تقدیر کہ پابندیِ احکام
یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مردِ خرد مند
اک آن میں سَو بار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اس کا مُقلِّد ابھی ناخوش، ابھی خُورسند
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
(علامہ اقبال )
ڈاکٹر اظہار الحق صاحب نے تقدیر، منشاء الہئ اور رضائے الہی کو کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں۔
میری کلاس کے ایک سٹوڈینٹ کے بارےمیں، میں نے امتحان سے تین ماہ قبل لکھا. یہ رول نمبر 202 آیندہ امتحان میں فیل ہو جائے گا۔ واقعی فیل ہو گیا مگر اپنے طرز عمل کے باعث۔ اسی طرح موسمیات والے ایک ہفتہ قبل بارش کی پیشگوئی کر لیتے ہیں. واقعی بارش ہو جاتی ہے۔ کیا یہ بارش موسمیات کے لکھنے کی وجہ سے ہوئی ؟ یا وہ سٹوڈینٹ میرے لکھنے کے باعث فیل ہوا. جواب ہے. نہیں. بالکل اسی طرح اللہ نے کسی انسان کی پیدائش سے قبل اس کے قاتل ہونے کے بارے میں لکھا. علم اللہ السابق کی بنیاد پر. مگر قتل اس انسان نے اپنے ارادے اور اختیار سے کیا. سزا اس کی ملتی ہے. اللہ کے لکھنے کا مطلب سمجھ میں آ جانے سے مسئلہ 2+2=4 کی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے. یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں. بس تدبر فی القرآن کی ضرورت ہے
اب جب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انسان کہ اختیار میں ہے کہ اس نے اپنی زندگی کیسے گزارنی ہے۔ تو پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ
عبس ہے شکوہ تقدیر یزداں ؎
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟
(علامہ اقبال )
اب کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ میری تقدیر میں ہی کامیابی نہیں لکھی، ہاں یہ بات سچ ہے کہ ہماری کامیابی اور کسی چیز کے حصول میں ہمارے ذاتی محنت کے علاوہ بھی کئی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسا کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلق وغیرہ لیکن اس کے باوجود جب آپ نے یہ تہیہ کرلیا کے آپ نے اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ہے اور آپ اس مقصد کیلئے پوری دل جمعی کے ساتھ کوشش کرتے ہیں تو کوئی بھی شے آپ کو اپنے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔
اپنی محنت کے بعد جو چیز آپ حاصل کرتے ہیں وہی آپ کی تقدیر بن جاتی ہے۔ رہی بات انسان کے عمل اور اس کے نجات کی تو جیسا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ہم نے اسے راستہ دکھایا ، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا
(سورۃ الانسان آیت 11)
قرآن بھی کہتا ہے کہ انسان کو راستہ دکھا دیا ہے، ابھی اس کے اپنے بس میں ہے کہ وہ شکر کرنے والا بنے یا انکار کرنے والا۔ جیسا اقبال نے لکھا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ؎
یہ خاکی اپنے فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
(علامہ اقبال )
اب ہمیں صرف اس بات پر یقین رکھنا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یا کریں گے اس کا علم اللہ کو ہے۔ اس کے علم میں کیا ہے یہ ہمارے علم میں نہیں ہے۔ اللہ نے ہم سے یہ کہا ہے کہ تم کوشش کرو، اور احکام خداوندی پہ عمل کرو کیونکہ انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کیلئے وہ کوشاں رہتا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ؎
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
(علامہ اقبال )
12 replies on “تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟”
Minahil December 1, 2020 at 9:28 pm
Amazing piece of writing. Truly inspirational and motivating.
May Allah bless you and your words.
admin December 2, 2020 at 10:50 am
Jazak Allah
Mustehsan December 1, 2020 at 9:42 pm
beautifully written, MaShaAllah ♥️
Hamza Abbasi December 1, 2020 at 10:52 pm
بہت خوب کہا جناب ????.
Hamza December 1, 2020 at 11:24 pm
So encouraging and motivating. Very well said our situation won’t change unless we want to change things for ourselves we should give our 100% focus and trust on the process and Allah will grant us success Inshallah. There’s a saying of Alama Iqbal
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
Final Thoughts:
Such positive energy keep on writing world needs more inspiration like this. Good luck for the future
admin December 1, 2020 at 11:56 pm
thanks alot for encouragement
Aasia khan December 2, 2020 at 7:52 am
Keep it up ????????????????
Hareem Fatima December 19, 2020 at 3:32 am
Brilliantly explained. Loved it, professor, sahab.
طوبہ نعیم January 12, 2021 at 9:05 pm
آپ نے بلکل صحیح کہا، تقدیر کبھی بھی ہماری کامیابی اور ناکامی کو ماپنے کا پیمانہ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہماری خود کی کسی چیز کو، مقام کو یاں اپنی منزل کو حاصل کرنے کی لگن ہوتی ہے۔
اگر سورج کی طرح چمکنے کی خواہش رکھتے ہو تو اسکی طرح پہلے تپنا سیکھو۔اللہ کرے کے آپکی یہ تحریر آج کی نوجوان نسل کو سیدھا راہ دکھانے میں معاون ثابت ہو
admin January 15, 2021 at 5:55 pm
جزاک اللہ
Arjmand November 18, 2021 at 8:41 pm
Beautiful piece of writing thought provoking as well✌
Nihal Ibrahim November 18, 2021 at 10:07 pm
Great message, sir.