نثر اور شاعری ۔ فرق، فہم اور فن

ادب میں لفظ کبھی سادہ بیان کی صورت میں سامنے آتا ہے، اور کبھی وجد کے رنگ میں ڈھل کر احساس بن جاتا ہے۔ یہی احساس جب لے اور آہنگ کے ساتھ بہنے لگے تو نثر سے آگے بڑھ کر نظم بن جاتا ہے۔ شاعری کا جوہر اسی لے اور توازن میں پوشیدہ ہے۔

نثر دراصل عام گفتگو کا انداز ہے۔ اس میں بحر یا وزن کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ نثر وہ اظہار ہے جو عقل و خیال کو بیان کرتا ہے۔ یہ خیالات کی ترتیب اور وضاحت پر قائم ہے، مگر جب یہی خیال آہنگ اور احساس کے قالب میں ڈھلتا ہے تو وہ نظم بن جاتا ہے۔ منیر نیازی کی مشہور نظم اس بات کی بہترین مثال ہے

ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشم حیراں میں

ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمالِ ابر و باراں میں

یہ نا آباد وقتوں میں
دلِ ناشاد میں ہوگی

محبت اب نہیں ہوگی
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہوگی

نظم احساس کا آہنگ ہے۔ اس میں وہ روانی اور سرور ہے جو لفظوں کو گنگنانے کے قابل بنا دیتا ہے۔ یہ وحدتِ خیال رکھتی ہے اور جذبات کو ایک تسلسل میں باندھتی ہے۔

یہ وہ موسیقیت اور جذبہ ہے جو نثر میں ممکن نہیں۔

آزاد نظم، نظم ہی کی ایک شکل ہے مگر اس میں کسی خاص بحر یا قافیہ کی قید نہیں ہوتی۔ پھر بھی اس کے مصرعوں میں ایک غیر مرئی توازن اور لے پائی جاتی ہے۔ یہی لے اسے نثر بننے سے بچاتی ہے۔

کشور ناہید کی نظم اس کا خوبصورت نمونہ ہے

یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
جو اہلِ جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں
نہ سر جھکائیں
نہ ہاتھ جوڑیں
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں
کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگ
وہ سرفراز ٹھہریں
نیابتِ امتیاز ٹھہریں
وہ داورِ اہلِ ساز ٹھہریں

یہ نظم نہ بحر کی پابند ہے، نہ قافیہ کی، مگر ہر مصرعے میں ایک وزن اور تاثیر موجود ہے جو دل پر اثر ڈالتی ہے۔

پابند نظم اپنی ساخت میں مکمل اور بحر و ردیف میں یکسانی رکھتی ہے۔ اس میں خیال کی وحدت کے ساتھ فکری تسلسل بھی ہوتا ہے۔ فیض احمد فیض کی مشہور نظم اس کی روشن مثال ہے

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دل

یہ وہ جذبہ ہے جو نظم کو محض لفظوں سے آگے لے جا کر احساس کی شدت بنا دیتا ہے۔

غزل دراصل پابند نظم کی ایک لطیف صنف ہے۔ اس میں بھی بحر کی یکسانی ہوتی ہے، مگر ہر شعر الگ خیال کا اظہار کرتا ہے۔ غزل احساس کے ٹکڑوں کا وہ سلسلہ ہے جو دل کی مختلف کیفیتوں کو ایک ہی فضا میں جوڑ دیتا ہے۔

مرزا غالب کی غزل اس کی مثال ہے

دلِ نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

شاعری ان سب سے وسیع مفہوم رکھتی ہے۔ یہ وجدان اور احساس کی زبان ہے۔ یہ وہ مجنونی فن ہے جس میں تخلیق اپنی انتہا کو پہنچتی ہے۔ نثر کو شاعری سے الگ رکھا جاتا ہے کیونکہ شاعری میں وہ آہنگ اور وجدانی تاثر ہوتا ہے جو نثر میں ممکن نہیں۔ لفظوں کی محض ترتیب شاعری نہیں، بلکہ احساس کی لہروں پر بہتا ہوا خیال شاعری بنتا ہے۔

جو لوگ شاعری سیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے سب سے پہلا قدم مطالعہ ہے۔ بڑے شعرا کے کلام کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ ان کے اشعار کی لے اور بحر کو محسوس کرنا چاہیے۔ پھر ان ہی کی زمین میں لکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ چوری نہیں بلکہ سیکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ شاعری کی مشق تبھی ممکن ہے جب انسان دوسرے شعرا کے آہنگ کو سننے اور سمجھنے کا ہنر سیکھ لے۔

نثر عقل کی زبان ہے، نظم احساس کی۔
غزل دل کی زبان ہے، اور شاعری روح کی۔
نثر بیان کرتی ہے، مگر شاعری محسوس کرواتی ہے۔

آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شاعری محض الفاظ کی ترتیب بدلنے کا نام نہیں۔ شاعری جملوں کو اوپر نیچے کرنے یا لفظوں کے ہیر پھیر سے پیدا نہیں ہوتی۔ نثر کو اگر آپ لائنوں میں توڑ دیں تو وہ نظم نہیں بن جائے گی۔ شاعری کے لیے صرف الفاظ کافی نہیں ہوتے، اس کے لیے احساس، وزن، لے اور ایک باطنی آہنگ چاہیے۔ جو شخص ان عناصر کے بغیر الفاظ لکھ کر خود کو شاعر سمجھتا ہے، وہ دراصل خود فریبی میں مبتلا ہے۔ لفظوں کا ڈھیر شاعری نہیں بناتا، اور ہر وہ تحریر جو گنگنائی نہ جا سکے، وہ شاعری کے دائرے سے باہر ہے۔

4 replies on “نثر اور شاعری ۔ فرق، فہم اور فن”

  • Afia Arif October 16, 2025 at 7:04 pm

    بہت خوب

  • Sara Irfan October 17, 2025 at 8:28 am

    Truly an exceptional writing and masterfully woven words
    Ma Sha Allah✨

  • Leena Shameen October 17, 2025 at 9:35 am

    Really thoughtful

  • Abdullah Zubair October 17, 2025 at 10:10 am

    Very insightful Sir

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *