سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
ماضی کی ریختہ یا اردوئے معل میں تغیرات ایک ارتقائی ٰی اور آج کی اردو ایک ایسی زبان ہے جس
عمل کی طرح ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان کی قومی زبان ہونے کے ناطے اردو ہمارے لیے
اور زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے سکولوں اور کالجوں کے اردو نصاب کو ترتیب دینا بھی
ایک نازک معاملہ ہے۔
میٹرک اور انٹر کا موجودہ نصاب اگر چہ ان ادبی تقاضوں پر پورا ہے جنکی ضرورت آج سے ایک
یا دو دہائی پہلے تک تھی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ نصاب جدید عسری اور ادبی تقاضوں پر پورا
اترتا ہے؟
کیا امتیاز علی تاج کے “آرام و سکون” اور سجاد حیدر یلدرم کے “مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ”
کے بعد ہمارے اردو ادب کو جدید دور کے عوامل کو مد نظر رکھنے واال کوئی ڈرامہ یا افسانہ نہیں
مال؟ یا شاہد احمد دہلوی اور فرحت ہللا بیگ کے بعد کوئی اچھے مضمون نگار اور خاکہ نگار پیدا
نہیں ہوئے؟
کیا کسی مصنف یا شاعر کو نصاب کا حصہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ دار فانی سے رخصت
ہو چکا ہو؟
دوسرا اہم نکتہ نصاب میں شامل رو مانوی شاعری کے نوجوان ذہنوں پر اثرات ہے۔ موجود نصاب کا
حصہ کچھ غزلیں:
1۔ نگاِہ یار جسے آشنائے راز کرے )حسرت موہانی(
2۔ محبت صلح بھی پیکار بھی ہے )سکندر جگر مراد آبادی(
3۔ شاِم غم کچھ اس سراپا ناز کی باتیں کرو )فراق گورکھپوری(
4۔ ہونٹوں پہ کبھی انکی میرا نام ہی آئے )ادا جعفری(
5۔ اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا )میر تقی میر(
6۔ قت ِل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا )خواجہ میر درد(
ہم مانتے ہیں کہ یہ شاعری اور شعرا ہمارے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں مگر کیا 16-18 سالہ ذہن
اس قابل ہیں کہ یہ رومانوی شاعری سمجھ سکیں؟
(آفتاب ثاقب)
One reply on “کیا اردو نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟”
Arjmand Naz October 13, 2020 at 10:32 am
Valid Point